Article by
صوفیاۓ کرام کی تعلیمات اور انسانی معاشرت
اقدس ہاشمی
دنیا فانی ہے اور دنیا میں بسنے والی ہر شے اسی خاصیت سے تعلق رکھتی ہے جس سے دنیا جبھی تو دنیا کو سمجھنے والوں نے دنیا سے مضبوط تعلق سے اجتناب کا درس دیا ۔اس سلسلے میں بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں مگر ان مثالوں سے پیشتر ہم صرف اپنے آپ پر نظر دوڑائیں تو سب سے بڑی سچی اور اٹل مثال ہماری اپنی ہے کیونکہ جو کچھ اپنے آپ پر گزرتی ہے وہ خود سے بہتر اور کوئی نہیں جان سکتا اور پھر وہ لمحہ بھی اٹل ہے جو آنے والا ہے یعنی ہمارا اختتام موت یا انتقال جس کے تحت ہم اس جہان فانی سے دوسری دنیا میں رخصت ہو جانے والے ہیں اس کے لیے جہاں تک ہماری بساط ہے نظر دوڑا کر دیکھ لیں تو ہمیں کروڑوں کی تعداد میں ایسی روشن مثالیں نظر آئیں گی کہ اس دنیا میں لوگ آتے رہے اور موت کے عمل سے گزر کر آئندہ کی زندگی کی طرف چلے جاتے رہے یعنی یہ سلسلہ اس وقت تک جاری و ساری ہے جب تک قیامت نہ آئے گی اور قیامت کا آنا بہرحال اٹل ہے۔ مختصراً یہ کہ ہم جس قدر اس دنیا کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں وہ ہمارے حق میں کسی بھی طرح بہتر نہیں ہے کہ اس کے لیے ہمارے بزرگوں نے ہی نہیں بلکہ خود اللہ تبارک و تعالی نے فرما دیا اور اس کا فرمانا لازوال اور اصل سچ ہے مگر یہ اس کی رحمتوں میں سے ہے کہ اس نے ہمیں دنیا میں گزارنے کے لیے وقت دیا اور اس وقت کو واپسی کے لیے بھی مقرر فرما دیا مگر ہم جب دنیا داری کی رنگینیوں میں اپنے آپ کو الجھا لیتے ہیں یا اس کے تائب ہو کر اپنے آپ کو ہی نہیں بلکہ اپنے خالق حقیقی کو بھی فراموش کر دیتے ہیں تو ہم اس لائق رہتے ہی نہیں کہ اپنے رب کی بارگاہ اقدس میں کسی وقار سے اپنے آپ کو پیش کر سکیں یعنی ہم اس فہرست میں اپنے آپ کو شامل کر چکے ہوتے ہیں جن پر اللہ اور اللہ کے خاص بندے ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں اور یوں ہم ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے یکسر محروم رہ جاتے ہیں جن کے سبب ہم اپنی زندگی کو خوبصورت اور پر آسائش کیے ہوئے اتراتے پھرتے ہیں۔
صوفیاۓ کرام نے اپنے اپنے انداز میں اپنے ارد گرد کے تمام لوگوں کو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایات سے فیضیاب ہونے کے سلیقے سے آگاہ کیا اور اپنے کردار و عمل سے اس کے ثبوت بھی فراہم کیے جن سے ہم سب شناسا ہیں مگر یہ شناسائی ہمارے کام کیوں نہ آئی اور ہم دنیا کے نرغے میں پھنسنے کی بجائے دین الہی کی طرف کیوں راغب نہ ہوئے ؟ جبکہ ہر اچھائی ہم پر روز روشن کی طرح واضح کر دی گئی اور ہر اچھائی کے اثرات ہم پر وقتا فوقتاً مرتب کر کے ہمیں باور کروایا گیا کہ وہی سچ ہے جو ہے اور رہے گا، جو مٹ جانے والا ہے وہ جھوٹ ہے، وقتی ہے، اس کی اہمیت و حیثیت صرف ہماری زندگیوں تک ہے وہ بھی اس لیے کہ ہم خود اسے اہمیت دیتے ہیں اگر ہم اس کی حیثیت سے منکر ہو جائیں اور اس کے مقابلے میں اس سچ کو قبول کر لیں جو ہمارے وجود میں سرایت کر چکا ہے، مگر ہم اس کا ادراک حاصل کرنا ہی نہیں چاہتے جبکہ وہ سچ ہی سب کچھ ہے اس کے سوا باقی سب جھوٹ ہے سچ ہمیشہ رہنے والا ہے ہمیں اس سے ماننا ہوگا کہ اس کو مانے بغیر ہمارا اپنا وجود بے معنی ہے اور جب ہم ہوں گے ہی نہیں تو پھر ہمارے لیے کیا باقی رہے گا۔ ذرا سوچیے
بابا فرید الدین گنج شکر فرماتے ہیں
تھیو پواہی دبھ، جے سائیں لوڑیں سبھ
اک چھجے، بیا لتاڑیے، تاں سائیں در واڑیے!
لہذا ہمارے لیے ہمیشہ سے ضروری رہا ہے کہ ہم اس قادر مطلق کی قدرت سے فیضیاب ہوتے ہوئے اس کا شکر بجا لائیں جس نے ہمیں ہمارے ظرف اور ضرورت کے مطابق ہر وہ شے عطا کر رکھی ہے جو ہمارے لیے سود مند ثابت ہوتی ہے بشرطیکہ ہم اپنی ضرورتوں کو اس سلیقہ مندانہ طریقۂ کار کے مطابق پورا کرنے کے عادی بن جائیں۔بابا فرید کا ایک اور اشلوک جو اپنی مثال آپ ہے ملاحظہ کیجیے
میں نوں مار کے منج کر، نکی کر کے کٹ
بھرے خزانے رب دے، جو بھاوے سو لٹ
غرض ہمارے لیے ہر اچھا راستہ کھلا ہے جو ہمیں ایک سیدھی راہ تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے اگر ہم اپنی انا کو مارنے میں کامیاب ہو جائیں اور اپنے نفس کی غلامی سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ بے شک اللہ تعالی ایسے لوگوں کی ضرور مدد فرماتا ہے جو بھلائی کی طرف آنا چاہتے ہیں کہ یہی کامیابی کی زندگی ہے۔بے شک ہماری غفلت ہی ہمیں برباد کرنے والی ہے اور اس وقت کا ضیاع ہے جو وقت ہمیں ہماری بہتری کے لیے عطا کیا گیا ہے۔ شاہ حسین کی ایک کافی اسی ضمن میں ملاحظہ فرما لیجئے
ویلا سمرن دا نی اٹھی رام دھیاۓ
ہتھ ملے مل پچھوتاسی، ویسی آوقت وہاۓ
اس تڑے توں بھر بھر گئیاں، اپنی وار لنگھاۓ
اکناں بھریا اک بھر گئیاں، اک گھرے، اک راہے
کہے حسین فقیر سائیں دا ، آتن پھیرا پاۓ
غرض زندگی اور موت کے درمیانی فاصلے کو طے کرتے ہوئے جو جو مصروفیات اپنائی جاتی ہیں اور جن جن خواہشات کو پایاۓ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہم جو کچھ کر گزرتے ہیں وہ ناقابل معافی جرم کے احاطے میں آتا ہے کیونکہ ہم اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر اس قانون کو بھول جاتے ہیں جو ہماری زندگی کے لیے ہمارے رب نے مختص کیے ہوئے ہیں اور ان سے باہر زندگی، دراصل زندگی ہے ہی نہیں باالفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم موجودہ دور میں جو زندگی گزار رہے ہیں وہ ہماری اپنی نیتوں کا پھل ضرور ہے مگر ہمارے اللہ کی خوشنودی اور رضا کے عین مطابق نہیں اس کی وجہ سے ہم ناکامیوں اور ذلت آمیزیوں کے شکار رہتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ہم اپنی مرضی کو اللہ تعالی کی مرضی کے سپرد کر دیں تو ہمیں دنیا جہان کی ہر نعمت سے مشرف کیا جا سکتا ہے اور ہمارے لیے ہر مقام پر بہتری ہی بہتری ہے بشرط یہ کہ ہم بہتری کے خواہاں ہوں۔ہزاروں سالوں سے معتبر لوگ ہم سب کے لیے راستے ہموار کرتے آ رہے ہیں مگر ہم چونکہ اپنی راہ تراش کر اس پر چلنا چاہتے ہیں اس لیے کسی دوسرے کے تراشیدہ راستے سے منہ پھیر لینے کو اپنے لیے بڑی بات تصور کیے بیٹھے ہیں۔ جس کے نتیجے میں بار بار ٹھوکریں ہمارا مقدر بنتی ہیں۔ اس کی شاید بڑی وجہ یہ ہے کہ جو راستے ہم وضع کرتے ہیں ان میں ہمارے اپنے مفادات کا رنگ چڑھا ہوتا ہے اور وہ راستے ہم سے شروع ہو کر ہم پر ختم ہو جاتے ہیں۔ جبکہ وہ راہیں جو اللہ کے حکم سے اللہ کے نیک و مقبول بندوں نے ہموار کیں وہ ہمارے لیے ایک منزل کی نشاندہی کرتی ہیں ایک مقصد حیات ہمارے سامنے واضح کرتی ہیں اور ان پر چل کر ہم ایک ایسے مقصد پر جمع ہو جاتے ہیں جہاں سچ ہی سچ ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ بلھے شاہ ہمیں اسی ادراک سے مربوط کرنے کی کوشش کرتے دکھائ دیتے ہیں۔
بلھا شاہ نگر سچ پایا
جھوٹا رولا سبھ مکایا
سچیاں کارن سچ سنایا
پایا اس دا پاک جمال
غرض عشق کی حقیقی بنیاد ہی سچائی ہے اور اسی پر قائم رہتے ہوئے عشق کی کامیابی کی توقع کی جا سکتی ہے اگرچہ دشوار گزار راستوں میں کئی الجھنیں اور رکاوٹیں اپنا روپ بدل بدل کر حائل ہوتی رہتی ہیں مگر سچائی کا علم بردار اپنی حقیقی منزل کی جانب پوری کامرانی سے سفر جاری رکھتا ہے اور اللہ تعالی کی تاہنگ اور طلب کے سرور میں تمام رکاوٹوں کو اس طرح غیر محسوس انداز میں جھٹکتا چلا جاتا ہے کہ اسے اس مشکلات کی خبر تک نہیں ہوتی ۔بے شک حق کی راہ پہ چلنے والوں کے لیے اللہ کی طرف سے آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں جو لمحہ بہ لمحہ گرتے پڑتے مسافر کو سہارا بھی دیتی ہیں اور حوصلہ بھی۔ آئیے دیکھیے سلطان العارفین حضرت سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ عشق کو کن کن پہلوؤں سے دیکھتے ہیں
عشق مؤذن دریاں بانگاں، کنیں واز پیوسے ہو
خون جگر دا کڈھ کراہاں وضو پاک سزیوسے ہو
سن تکبیر فناۓ والی، مڑن محال تھیوسے ہو
پڑھ تکبیر تھیوسے واصل تاہیں شکر کیتوسے ہو
ہمیں ان حقائق کی روشنی میں اپنے معمولات کو ترتیب دے لینا چاہیے اس سے پہلے کہ ہم اس وقت کو کھو بیٹھیں جو رب العالمین کی جانب سے ہمیں عطا کیا گیا ہے جسے ہم زندگی سے تعبیر کرتے ہیں اور جس نے ہر حال میں اپنے مقررہ وقت پہ ہمارا ساتھ چھوڑنا ہے اور پھر ہمیں اپنے پروردگار کے حضور جمع ہونا ہے اپنے اپنے اعمال کے ساتھ اور اگر ہمارے پاس نیک اعمال کا فقدان ہوا تو کیا بنے گا اور اگر ہم نے دنیا میں رہتے ہوئے صرف دنیا داری نبھائی تو ہمارے گناہوں کا بوجھ ہمیں ایسا ڈبوئے گا کہ پھر ہم جہنم کی گہرائیوں میں غرق ہونے سے ہرگز نہ بچ سکیں گے۔ہمارا رب ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے اپ کو اس عذاب سے بجا سکنے میں کامیاب ہو سکیں جو نہایت کرب ناک ہے۔ بلھے شاہ اور دیگر اکابرین کی کافیاں ہمیں یہ ادراک مہیا کرتی ہیں کہ ہمیں زندگی میں کیا کرنا چاہیے اور آئندہ کا خیال کرتے ہوئے اپنی زندگی کو خالصتاً اللہ کے لیے وقف کر دینا چاہیے اور جو ارشادات باری تعالی ہیں ان کی روشنی میں اپنے آپ کو صحیح راستے پر گامزن کرنے کی کوشش کرنی چاہیے باقی نتائج رب کریم پر چھوڑ دینے چاہیے بے شک ہمارا رب بڑا غفور رحیم ہے اور ہمیشہ بہتریاں فرمانے والا ہے۔
+92 51 88 93 092
First Floor, RAS Arcade, Eidhi Market, Street#124, G-13/4, Islamabad, Pakistan, 44000.