Article by
مسئلہ تقدیر و تدبیر میں توکل کا کردار
Sara Noor
ایک مشہور کہاوت ہے کہ ایک مرتبہ کسی گاؤں میں سیلاب آیا تو ایک آدمی خدا سے مدد کی دعا کرنے لگا۔ اس کے پاس ایک کے بعد ایک لوگ آئے اور اس کو کشتی میں ساتھ چلنے کی پیشکش کی لیکن وہ درخت سے نیچے نہیں اترا کیونکہ وہ خدا کی طرف سے بچا لئے جانے کا منتظر تھا۔ اس شخص کا انجام کیا ہوا اس بارے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اسی طرح آج کی امت مسلمہ کی حالت کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں جو ایک مفلوج اکائ کی طرح خدائی مدد کے منتظر بیٹھے ناانصافی اور ظلم پنپتا دیکھ رہے ہیں۔ کیا ہم انسانوں کے ہاتھ میں اپنی تقدیر بدلنے کی قدرت ہے؟ تقدیر اور تدبیر کے نازک توازن کو سمجھنے کے لیے توکل کے تصور کو سمجھنے سے مدد مل سکتی ہے۔
ماہ صیام میں روزہ کھولتے ہوئے ہم عربی دعا پڑھتے ہیں جس کے معنی ہیں اے اللّٰہ ہم نے تیرے لیے روزہ رکھا، اور تجھ پر ایمان لائے اور تجھ پر بھروسہ/ توکل کیا اور تیرے عطا کیے ہوئے رزق سے روزہ افطار کیا۔
روزے کی اہمیت کے بارے میں بہت بات کی جاتی ہے اور اس دعا میں روزے کا تعلق تین اہم چیزوں یعنی ایمان، توکل اور رزق کے ساتھ بتایا گیا ہے۔ گویا ایک شخص ایمان لایا، اس نے رب پر بھروسہ کر کے روزہ رکھا اور اس کے رب نے اسے رزق عطا فرما دیا۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ توکل کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟
توکل ایک عربی لفظ ہے جس کو آسان الفاظ میں بھروسہ یا رب پر بھروسہ کرنا کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشادِ ربانی ہے "تم فرماؤ: ہمیں وہی پہنچے گا جواللّٰہ نے ہمارے لیے لکھ دیا۔ وہ ہمارا مددگار ہے اور مسلمانوں کو اللّٰہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔ (سورہ التوبہ، آیت 51)
دراصل اسلامی عقائد انسان کے دل و دماغ پر چھائے لاعلمی کے بادل دور کر کے اس کی سوچ اور روح کو زمان و مکان کی زنجیروں سے آزاد کرتے ہیں اور انسان کو کے اس کے حی القیوم رب کے ساتھ جوڑ کر اس فانی اود مادی دنیا کی قید سے آزاد کرتے ہیں۔ توکل وہ طاقت ہے جو انسان کو اپنی بساط کے مطابق بھرپور کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے رب کی قدرت، طاقت اور علم و حکمت پر بھروسہ کرنا سکھاتی ہے۔ اس طرح انسان خدا کی بنائ ہوئ کائنات میں خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور عقلی و روحانی طور پر آزاد ہو جاتا ہے۔
مثال کے طور پر نومولود موسیٰ کی والدہ نے ظاہری حقائق اپنے حق میں نہ ہونے کے باوجود بھی اپنی سی کوشش کر لی اور نتیجہ اللّٰہ کے سپرد کر دیا۔ ان کے رب پر بھروسہ کرنے کی بظاہر کوئ وجہ نظر نہیں آ رہی تھی کیونکہ دریا کی لہریں اور حکومت وقت دونوں ان کے مخالف تھے لیکن اپنی پوری کوشش کر کے خدا کی طرف سے دی گئ تدبیر لڑا کر انھوں نے اپنے بچے کی جان بچانے کے لیے اس کو ٹوکری میں رکھ کر دریا میں ڈال دیا۔
اللّٰہ نے اپنی حکمت سے وقت مقررہ پر ام موسیٰ کو ان کے لخت جگر سے بھی ملوا دیا، موسیٰ کی جان بھی بچ گئ، آسیہ کو رب کی طرف سے اولاد کا تحفہ مل گیا اور ظالم نظام کے عین درمیان ہدایت کا سر چشمہ رکھ دیا گیا۔ حکمتِ الٰہی سے ہر کسی کو اس کی ضرورت کے مطابق نواز دیا گیا۔ اس واقعے میں رب کی اپنے بندوں میں عطا و نعمت کی منصفانہ تقسیم بھی نظر آ رہی ہے۔ موسیٰ کی ہدایت آسیہ اور فرعون دونوں کے لیے تھی مگر ہر کوئ اپنے ظرف کے مطابق اختیار کی طاقت استعمال کرتا ہے۔ کوئ اپنی انا، ضد اور تکبر کی قید میں رہتا ہے اور کوئی اپنے واہموں اور خوف سے نکل کر آزاد ہو جاتا ہے۔
یہاں ذہن میں سوال آتا ہے کہ اگر تدبیر اور توکل کے باوجود نتیجہ من پسند نہ ہو تو کیا کریں؟ اس کا جواب اوپر درج آیت ربانی میں ہے کہ انسان کا بھروسہ اللّٰہ کے کامل علم اور اس کی بنائ گئ قدر پر ہوتا ہے۔ انسان کو اللّٰہ نے اختیار کی جتنی طاقت عطا فرمائی ہوئ ہے اس کا کام اسے بھرپور استعمال کرنا ہے اور اس کے بعد رب کی طرف سے آنے والے فیصلے پر راضی رہنا ہے۔
آج ہماری انفرادی و قومی زندگی میں اپنے زور بازو پر بھروسہ کر کے خدا سے اس کی نصرت طلب کرنے کی ضرورت ہے۔ اقوامِ عالم کی اولین صف میں پہچان بنانے کے لئے آج کے مسلمان کو پہلے خود کو بحیثیت انسان جاننا ہو گا تاکہ وہ اپنی خدادا د صلاحیتوں کو بہترین طریقے سے بروئے کار لا سکے۔ کہاوت مشہور ہے کہ اگر ایک صاحب ایمان شخص اور ایک کافر ڈوب رہا ہو تو خدا اسی کی مدد کرے گا جس کو تیرنا آتا ہو گا۔ مسلمان ممالک کو اپنی تعلیمی اور سائنسی ساکھ مضبوط کرنے اور معاشی استحکام حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف اسی صورت اقوامِ عالم کے درمیان ہمارا قد اونچا اور بات میں وزن آ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کی بنائ ہوئ جنت جسے مومن کی میراث کہا جاتا ہے، اس کے حصول کے لیے بھی ایمان کے ساتھ اچھے اعمال بھی ضروری ہیں۔
الغرض ، توکل انسان کو تدبیر کا استعمال کرنا ، رضائے الٰہی پر راضی رہنا، اللّٰہ کی طرف سے ملنے والی ہر شے کو قبول کرنا، اس کی قدرت اور وقت مقررہ کو خوش دلی سے ماننا سکھاتا ہے- آئیے اس ماہِ صیام میں توکل کے جذبے کی اصل روح سمجھ کر خود کو وقت کی لہروں پر ڈولنے کے لیے نہ چھوڑ دیں بلکہ خدا کی بنائ ہوئ تقدیر کو مانتے ہوئے اپنے حصے کی کوشش و تدبیر کرتے رہیں۔ نتیجے کا مالک اللّٰہ ہے اور اللّٰہ یقیناً بہترین جزا دینے والا ہے۔
+92 51 88 93 092
First Floor, RAS Arcade, Eidhi Market, Street#124, G-13/4, Islamabad, Pakistan, 44000.