Urdu Articles



Saif-ul-Muluk Stage Play Review: A Missed Symphony of Sound and Emotion

Saif-ul-Muluk Stage Play Review: A Missed Symphony of Sound and Emotion
Published On: 02-Aug-2025
3017 views

Article by


ڈرامہ اور موسیقی: ہم آہنگی یا انتشار؟

پچھلے دنوں عزیزم حسن شہزاد راجہ کے ہمراہ پی این سی اے میں ارشد چہال صاحب کا تحریر کردہ اور عاصمہ بٹ پروڈکشن کی جانب سے پیش کردہ ڈرامہ " سیف الملوک " دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ڈرامے میں افضال لطیفی صاحب کچھ کچھ دیر بعد مناظر و واقعے کی مناسبت سے منظر نامے پر ایک فقیر کے روپ میں ایک جانب سے ابھرتے اور سیف الملوک کے اشعار پر lip syncing  کرتے اور دوسری جانب غائب ہو جاتے۔ اس کے علاوہ بھی ڈرامے میں پلے بیک کے طور پر بہت زیادہ میوزیکل ٹکڑے تھے۔ میں نے جو چیز observe کی جو کہ ڈرامے کے حوالے سے بہت زیادہ اہم ہے وہ یہ کہ ڈرامہ چلتا ہی محسوسات پہ ہے۔ اور موسیقی ان مناظر و کیفیات کو دو آتشہ کرتی ہے۔ اس ڈرامے میں اگر مناظر کی مناسبت سے کوئی میوزک کا ٹکڑا چل رہا ہوتا تو ساتھ ہی اچانک سے سیف الملوک کے بیت کی آواز (راگ پہاڑی والی) آنا شروع ہو جاتی۔ اور اس صورتحال سے اتنی شدید کوفت ہوتی اور سماعتوں پر اتنا برا اثر پڑتا کہ بیان سے باہر ہے۔ کچھ ایسے ہی محسوسات حسن بھائی کے بھی تھے۔۔۔
مجھے اس تمام دورانیے میں اپنا تھیٹر ڈرامہ جو کہ عمران بھائ ( اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی ایچ ایٹ کالج) کا تحریر کردہ تھا اور اسے پروڈیوس عزیز دوست محمد علی فااروقی نے کیا تھا اور اس میں وارث شاہ کا کردار بھی علی بھائی نے ہی نبھایا تھا ، " میں ہاں وارث" یاد آتا رہا جس میں کوئی پلے بیک میوزک یا سنگنگ نہیں تھی بلکہ براہ راست ہیر وارث شاہ کے اشعار مناظر کی مناسبت سے گائے جاتے تھے جو کہ میں گاتا تھا ہارمونیم کے ساتھ سٹیج پر ایک سپاٹ لائیٹ میں۔۔
اور تو اور ڈرامے کے آخری مناظر میں شہزادہ سیف الملوک اور بدیع الجمال کے ملن کے موقع پر مہدی حسن کی فلمی غزل "دنیا کسی کے پیار میں" چلا دی گئ اور ناظرین نے تالیاں پیٹنا شروع کر دیں اور سیٹیاں بجانا شروع کر دیں۔ یہ حال ہے ہمارے پیشکاروں کا اور ناظرین کے ذوق کا۔ 
یہ کتنا ضروری ہے کہ ڈرامے کے پیشکاروں اور ہدایت کاروں کو موسیقی کا گہرا ذوق ہو اور انہیں ڈرامے میں موسیقی کو برتنے اور اس کی غنائ کیفیت کو آخر تک برقرار رکھنے کا ہنر اور ذوق ہو۔
یہ بات اب محتاجِ وضاحت نہیں رہی کہ تھیٹر، محض مکالموں یا حرکات کا نام نہیں بلکہ یہ تمام فنونِ لطیفہ کا ایک ہم آہنگ امتزاج ہوتا ہے، جس میں سب سے طاقتور عنصر موسیقی ہے۔ موسیقی نہ صرف جذبات کو ابھارتی ہے بلکہ کرداروں کی کیفیات اور مناظر کے بین السطور معانی کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ مگر یہ طاقت تب ہی مفید ثابت ہوتی ہے جب اسے سلیقے، فہم، اور جمالیاتی شعور کے ساتھ استعمال کیا جائے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثر تھیٹر کے ہدایتکار اور پروڈیوسر حضرات موسیقی کو محض ایک تڑکا یا بھرتی کا جزو سمجھتے ہیں۔ وہ نہ تو راگ کی ساخت سے واقف ہوتے ہیں، نہ ہی اشعار کی طرز اور آہنگ سے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر سمعی و بصری ہم آہنگی درہم برہم ہو جاتی ہے، اور سامع ناظر کے جذبات میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ موسیقی، خاص طور پر کلاسیکی یا نیم کلاسیکی دھنوں کو برتنا ایک سنجیدہ فن ہے، جس کے لیے پیشکاروں اور ہدایتکاروں کو کسی نہ کسی درجے کی تربیت یا کم از کم سنجیدہ رغبت درکار ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے تھیٹر ادارے ڈرامہ سازی کے عمل میں موسیقی کو محض ایک سہارا نہ سمجھیں بلکہ اسے بیانیے کا جزوِ لازم تسلیم کریں۔ ہدایتکاروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ موسیقی کے بنیادی اصولوں، راگوں کے مزاج، اور صوتی تاثرات کے علم سے واقف ہوں تاکہ وہ اس فن کو جذب کر کے تھیٹر کو ایک مکمل فنی تجربہ بنا سکیں، نہ کہ ایک شور انگیز منظرنامہ۔
اقدس ہاشمی

About Us

Monthly "Azeem English Magazine", launched in 2000, records the information about diverse fields like mental health, literature, research, science, and art. The magazine's objective is to impart social, cultural, and literary values to society.

Contact Us

Azeem English Magazine

 +92 51 88 93 092

 contact@aemagazine.pk

  First Floor, RAS Arcade, Eidhi Market, Street#124, G-13/4, Islamabad, Pakistan, 44000.