Article by
تہذیب، ٹیکنالوجی اور احساسات
Aqdas Hashmi
تہذیب وہ معاشرتی ترتیب ہے جو ثقافتی تخلیق کو فروغ دیتی ہے۔ تہذیب معاشرے کے طرزِ زندگی اور فکر و احساس کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ چنانچہ زبان، آلات و اوزار، پیداوار کے طریقے، سماجی رشتے، رہن سہن اخلاق و عادات،رسوم و روایات، علم و ادب، حکمت و فلسفہ، عقائد و نظریات، عشق و محبت کے سلوک، فنونِ لطیفہ اور خاندانی تعلقات وغیرہ تہذیب کے مختلف مظاہر ہیں۔ بعض عوامل تہذیب کو متعین کرتے ہیں ان میں سے پہلا عامل ارضیاتی حالات ہیں دوسرے نمبر پر جغرافیائی حالات ہیں جو تہذیب کی ترقی میں ممد و معاون بھی ہو سکتے ہیں اور باعثِ رکاوٹ بھی۔ معاشی حالات زیادہ اہم ہیں کیونکہ اگر انسان اپنے وجود کی بقا کے لیے جانوروں کا پیچھا کرنے پر ہی انحصار کرتا تو بربریت سے تہذیب تک کا سفر کبھی بھی طے نہیں کر سکتا تھا۔ تہذیب کے لیے کوئی نسلی شرائط نہیں۔ یہ کسی بھی براعظم، رنگ اور نسل میں پیدا ہو سکتی ہے۔ کوئی بڑی نسل تہذیب کو پیدا نہیں کرتی بلکہ یہ بڑی تہذیب ہی ہے جو قوموں کو تخلیق کرتی ہے تہذیب کوئی خلقی شے نہیں نہ ہی یہ لازوال ہے، تہذیبیں بنتی اور مٹتی رہتی ہیں ۔چار عناصر مل کر تہذیب کو متشکل کرتے ہیں، معاشی بہم رسانی، سیاسی تنظیم، اخلاقی روایات اور علوم و فنون کی جستجو۔ تہذیب ابتری اور بد نظمی کے خاتمے سے شروع ہوتی ہے کیونکہ جب خوف پر قابو پا لیا جائے تو تجسس اور تعمیری اپج آزاد ہو جاتے ہیں اور انسان قدرتی طور پر زندگی کی تفہیم و تزین کی طرف بڑھتا ہے۔تہذیب برفانی ادوار کا درمیانی وقفہ ہے کسی بھی وقت یخ بستگی کی یہ لہر دوبارہ کھڑی ہو کر انسانی کارناموں کو برف سے ڈھانپ کر زندگی کو زمین کے کسی چھوٹے سے ٹکڑے تک محدود کر سکتی ہے یا زلزلے کا دیوتا بے نیازی سے اپنے شانے ہلا کر ہمیں ہمیشہ کے لیے تباہ کر سکتا ہے۔ یہ تو تہذیب کے ابتدائ عوامل تھے دیگر عوامل میں جغرافیائی حالات بھی ہیں۔ کاہلی، بیماری، قبل از وقت بلوغت اور موت، زندگی کے ان لوازمات سے جو تہذیب کی تشکیل کرتے ہیں توانائی چھین کر انہیں بھوک اور تولید میں ضم کر دیتی ہیں۔ فنون اور ذہن کے کرنے کو کچھ باقی نہیں رہتا۔ بارش لازمی ہے کیونکہ پانی زندگی کا ذریعہ ہے اور سورج کی روشنی سے زیادہ اہم ہے۔ عناصر کی ناقابل فہم لہر نینوا اور بابل جیسے علاقوں کی توڑ پھوڑ کر سکتی ہے جہاں کبھی بادشاہت اور صنعت ہوتی تھی یا برطانیہ اور بگٹ ساؤنڈ جیسے شہروں کی طاقت اور دولت بڑھانے میں مدد کر سکتی ہے۔اگر زمین فصلوں اور معدنیات کے لیے زرخیز ہے اگر دریا تبادلے کے آسان ذرائع مہیا کرتے ہیں اور اگر ساحل سمندر تجارتی جہازوں کے لیے قدرتی بندرگاہیں موجود ہیں، اگر کوئی قوم عالمی تجارت کی شاہراہ پر واقع ہے مثلا ایتھنز، فلورنس یا وینس تو جغرافیائی حالات تہذیب کی ترقی میں مدد کرتے ہیں، اگرچہ اس کی تخلیق نہیں کر سکتے۔ ایک عربی بدو جیسا خانہ بدوش بہت زیادہ ذہین اور طاقتور ہو سکتا ہے وہ کردار کی اعلی خوبیوں جرات فیاضی اور نیکی کا مظاہرہ کر سکتا ہے لیکن کلچر کی لازمی شرط غذا کی مسلسل فراہمی کے بغیر اس کی ذہانت شکار کے خطرات اور تجارت کی چالاکیوں میں ضائع ہو جائے گی اور تمدن کی تزین و زیبائش تہذیب و تسلیمات اور فنون و آسائش کے لیے کچھ بھی باقی نہ بچے گا۔ کلچر کی پہلی شکل زراعت ہے اس کا ظہور اس وقت ہوتا ہے جب انسان زمین کاشت کرنے کے لیے ایک جگہ ٹھہر جاتا ہے اور غیر یقینی مستقبل کے لیے اشیاء بچا کر رکھ لیتا ہے تحفظ کے اس چھوٹے سے دائرے میں پانی اور غذا کی معقولی معقول فراہمی کے سبب وہ اپنے جھونپڑے، عبادت گاہ، سکول اور پیداواری آلات وغیرہ ایجاد کرتا ہے اور کتے، گدھے،گھوڑے اور آخر میں اپنے آپ کو سدھاتا ہے۔ وہ نظم و ضبط اور باقاعدگی سے کام کرنا سیکھ جاتا ہے زیادہ طویل عرصے تک زندہ رہتا ہے اور اپنی نسل کے ذہنی اور اخلاقی ورثے کو پہلے سے زیادہ بھرپور انداز میں اگلی نسل تک منتقل کرتا ہے۔ یہاں پر یہ بات بہت اہم ہے کہ کلچر ذراعت کا تقاضا کرتا ہے جبکہ تہذیب شہر کا۔ ایک پہلو سے تہذیب شائستگی کا لباس ہے اور شائستگی وہ نفاست ہے جو شہر میں بسنے والوں نے صرف شہر ہی میں ممکن سمجھی کیونکہ دولت اور ذہانت جو دیہی علاقوں میں پیدا ہوتی ہیں، شہر میں جمع ہو جاتی ہیں۔ شہروں میں ایجادات اور صنعت، سہولیات، تعیش اور فراغت کو بہت بڑھا دیتی ہیں شہروں میں تاجر ملتے اور اشیاء اور خیالات کے تبادلے کرتے ہیں۔ تجارت کے ان مقامات پر ذہن ایک دوسرے کے اثرات قبول کرتے ہیں ذہانت تیز ہوتی ہے اور تخلیقی قوت میں ڈھل جاتی ہے۔ شہروں میں کچھ لوگ مادی کاروبار سے علیحدہ ہو کر سائنس، فلسفہ، ادب اور آرٹ تخلیق کرتے ہیں۔ تہذیب کسانوں کے جھونپڑوں سے شروع ہوتی ہے لیکن اس کی افزائش شہروں میں ہوتی ہے۔ مثلا انگریزوں نے انگریزی تہذیب کو تخلیق نہیں کیا بلکہ اس تہذیب نے ان کو تخلیق کیا۔ اگر وہ اسے اپنے ساتھ ساتھ لیے پھرتا ہے اور مخصوص لباس پہن کر کھانا کھاتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس وقت نئ تہذیب تخلیق کر رہا ہے بلکہ وہ اپنی روح پر اس تہذیب کی حکمرانی تسلیم کرتا ہے۔ ایسے ہی مادی حالات کسی اور نسل کے پاس ہوں تو وہ ایسے ہی نتائج پیدا کرے گی۔
انسانی اجتماعی زندگی کی حرکیات نے اس کو مختلف ادوار دکھاتے ہوئے ایجادات کے دور میں داخل کیا اور بیسویں صدی یعنی ٹیکنالوجی کی صدی کی حیرت انگیز دور میں انسان داخل ہوا۔ ٹیکنالوجی میں مختلف آلات کی ایجاد نے جہاں انسان کو بہت زیادہ سہولیات سے ہمکنار کیا اور تعیش بھری زندگی سے نوازا وہیں پر اس ٹیکنالوجی نے کچھ ایسے اثرات بھی مرتب کیے کہ انسان تہذیبی، اخلاقی، معاشی، نفسیاتی، مذہبی، جنسی اور سیاسی حوالے سے نئے رجحانات میں داخل ہوا۔ آج سے تقریبا سو سال پہلے شاعر مشرق حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا ایک شعر کچھ ایسی ہی صورتحال کی عکاسی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
مشرقی تہذیب ہر حوالوں سے ایک منفرد، قدیم اور انوکھے لوازمات لیے ہوئے تھی جن میں اس کا رہن سہن، بود و باش رسوم و رواج، ثقافتی لوازمات مثلا آرٹ، موسیقی رقص، شاعری وغیرہ شامل ہیں لیکن جیسے ہی یہ ٹیکنالوجی کے دور میں داخل ہوتی ہے تو اپنے کچھ حوالوں سے دستبردار ہوتی دکھائی دیتی ہے انہی حوالوں کا تذکرہ حکیم الامت کے اس شعر میں ملتا ہے۔ کیا آلات یا مشینیں واقعی احساس کو کچل دیتی ہیں؟ یا جذبات کو ختم کر دیتی ہیں؟ یہ سوال بہت اہم ہے. جوں جوں مشینوں کی حکومت بڑھتی جا رہی ہے اس سوال کی اہمیت بھی بڑھتی جا رہی ہے. بادی النظر میں یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ اس سوال کے اٹھانے کی ضرورت کیا ہے یعنی کہ مشینوں اور جذبات میں کوئی بھی تضاد کیوں ہوگا۔ جاپانی لوگ جن کے ہاں فنونی فوقیت اور برتری کی پرانی روایت چلی آ رہی ہے مغرب کے میکانکی طریقوں کو دیکھتے ہی فورا ان کی نقل کرنا چاہتے ہیں۔ انیسویں صدی خود کو مشینی ترقی کی وجہ سے پچھلی صدیوں سے برتر سمجھتی ہے۔ جو لوگ مشینوں کی پرستش کرتے ہیں ان کے لیے اس کی وجہ ان مشینوں کی خوبصورتی ہے۔ مشینوں کی قدر و قیمت ان کی طاقت میں پنہاں ہے، جو لوگ مشینوں سے متنفر ہیں ان کو یہ مشینیں بدہیت لگتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مشینیں غلامی پیدا کرتی ہیں۔ یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ ان میں سے کوئی ایک صحیح ہے اور دوسرا غلط۔ مشین الف لیلہ کے جن کی طرح ہے جو اپنے آقا کے لیے خوبصورت، رحم دل اور نیک ہے مگر دشمنوں کے لیے بھیانک اور ڈراونی۔ مشین نے جہاں انسانی محنت کو بہت زیادہ کم کر کے سہولت مہیا کی ہیں وہیں پر سماج سے اجتماعیت کا احساس بھی کم کر دیا ہے۔ انسانوں کی طبعی ضروریات بھی ہوتی ہیں اور جذبات بھی ہوتے ہیں جب تک طبعی ضروریات پوری نہیں ہوتی وہ پہلے نمبر پر ہی رہتی ہیں مگر جب وہ پوری ہو جاتی ہیں تو پھر ہماری خوشی یا نہ خوشی کا تعین کرنے میں وہ جذبات اہم کردار ادا کرتے ہیں جن کا ان طبعی احتیاجات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مشین کا تعلق خوشی سے بھی جوڑا جا سکتا ہے خوشی کا تعلق حاجات سے اور حاجات پوری کرنے کے لیے پہلی ضرورت آمدنی میں اضافہ ہے۔ آخر ہم سب اپنی آمدنی میں اضافہ کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ پہلی نظر میں ایسا محسوس ہو کہ ہم مادی اور دنیاوی اشیاء کو پسند کرتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے دراصل ہم صرف اپنے پڑوسی کو مرعوب کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں جب کوئی کسی اچھے محلے کے نئے گھر میں منتقل ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی کلاس بدل گئی اور اب زیادہ بہتر لوگ اس کے گھر آئیں گے اور وہ اپنے پرانے زمانے کے ناکام اور نا آسودہ ساتھیوں سے دور ہو جائے گا. جب وہ اپنے بچے کو کسی اچھے سکول یا کسی مہنگی یونیورسٹی میں بھیجتا ہے تو اس کی بھاری فیس کے بارے میں خود کو یہ کہہ کر دلاسہ دیتا ہے کہ اس طرح اس نے سماج میں نیک نامی اور مقبولیت حاصل کی ہے, جیسے کچھ گھر صرف اس وجہ سے مہنگے ہوتے ہیں کہ وہ ایک مہنگے محلے میں ہیں۔ انسانی آرزوؤں اور خواہشات میں سب سے زیادہ طاقتور خواہش یا آرزو تعظیم و توصیف کی ہے اور یہ دونوں چیزیں ان کو مل رہی ہیں جو امیر ہیں اور فی زمانہ عمارت کا تعلق مشین سے ہے۔ زندگی اور خوشی اس تمام صورتحال سے مختلف بھی ہو سکتی ہے اور کچھ معاشروں میں رہی بھی ہے اشرافیہ کے دور میں لوگوں کی عزت ان کے خاندان اور نسل کی بنیادوں پر کی جاتی تھی۔ پیرس کے کچھ حلقوں میں لوگوں کی عزت ان کے فنونی اور ادبی علم اور صلاحیتوں کی وجہ سے ہوتی ہے اور ماضی میں بھی ایسا رہا ہے مثلا ہندوستان میں صوفیوں کے عزت کی جاتی تھی اور چین میں عقلمندوں کی، قدیم ایتھنز میں فلسفیوں کی۔ مختلف معاشروں میں یہ فرق ہماری بات کی توثیق و تائید کرتا ہے کہ پیسے کی خواہش دراصل عزت اور توصیف کی خواہش میں پنہاں ہے کیونکہ ان معاشروں کے زیادہ تر لوگ زندگی کی بنیادی ضروریات کے علاوہ پیسے کی پرواہ نہیں کرتے مگر ان چیزوں کے آرزو مند ہوتے ہیں جن کی ان کے معاشرے میں عزت کی جاتی ہے اور ظاہر ہے فی زمانہ عزت کا معیار مشینیں ہیں۔ جس کے پاس زیادہ جدید اور عمدہ مشین ہوگی وہ سماج میں زیادہ معتبر اور باعزت سمجھا جائے گا۔ اگر قانوناً ہم سب کی آمدنی ایک ہو جائے اور پھر ہم اپنے پڑوسی سے اپنے آپ کو ممیز کرنے کے اور طریقے ڈھونڈیں گے اور یہ دنیاوی اور مادی اشیاء کے حصول کی دوڑ ختم ہو جائے گی کیونکہ دنیا میں رہنے کے لیے اجتماعیت بہت اہم چیز ہے جو کہ مشین کی وجہ سے ختم ہو رہی ہے۔ مشین ایک شے ہے اور شے کا تعلق فرد واحد سے ہوتا ہے مثلا موبائل فون ہی کو لے لیجئے موبائل فون سے پہلے کا زمانہ دیکھیے اور اب کا دیکھیے گو کہ یہ کہا جاتا ہے موبائل فون نے پوری دنیا کو سکیڑ دیا ہے دنیا کو گلوبل ولج بنا دیا ہے اور دنیا کے ایک کونے میں رہنے والا آدمی دنیا سے دوسرے کونے میں رہنے والے آدمی سے محض ایک بٹن کے فاصلے پر ہے لیکن ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد ایک دوسرے سے بہت دور ہو چکے ہیں، یہ بھی حقیقت ہے۔ لہذا اگر ہم یہ استدلال کریں کہ مشینوں سے خوشی میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ مشین نے مادی ترقی میں مدد دیتی ہیں تو یہ استدلال سوائے مفلسوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے کہیں اور لاگو نہیں ہو پائے گا اور اگر آبادی میں اضافہ نہ ہو تو یہ بنیادی ضروریات بغیر ان مشینوں کے بھی پوری کی جا سکتی ہیں اس سلسلے میں فرانس کی مثال دی جا سکتی ہے جس میں مفلسی کم ہے اور امریکہ برطانیہ اور جنگ سے پہلے کے جرمنی کے مقابلے میں مشینیں بھی بہت کم ہیں لہذا جہاں زیادہ مشینیں ہوں گی وہاں مفلسی بھی زیادہ ہوگی۔ مفلسی سے بچاؤ مشینوں میں نہیں بلکہ کچھ اور چیزوں میں مضمر ہے جیسے آبادی کے بڑھاؤ کا سدباب اور سیاسی حالات۔ مشینیں ہمیں انسانی خوشی کے دو اہم اجزاء سے محروم کرتی ہیں یعنی بے ساختگی اور تنوع۔ مشینوں کی اپنی رفتار ہوتی ہے اور اپنی تاکیدی اور تکراری ضرورتیں ہوتی ہیں۔ جذبات کے نقطہ نظر سے مشینوں کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ ان کی باقاعدگی اور با ضابتگی ہے اور اسی طرح مشینوں کی طرف سے جذبات پر سب سے بڑا الزام ان کی بے ضابطگی اور بے قاعدگی ہے جو لوگ اپنے کو سنجیدہ سمجھتے ہیں ان کے دماغ پر لہذا وہ کسی کی سب سے بڑی اچھائی یا خوبی اس میں سمجھتے ہیں کہ اس میں مشینی خصوصیات ہوں یعنی کہ وہ قابل اعتبار ہو، وقت کا پابند ہو اور غلطی یا نقائص سے پاک ہو اسی وجہ سے ایک بے قاعدہ زندگی کو بری زندگی تصور کیا جاتا ہے۔ فکر کے برعکس عملی زندگی میں مشینوں کی غلامی کے خلاف ہماری جبلی بغاوت نے ایک بہت ہی بد قسمت موڑ لیا ہے جب سے انسان نے سماج میں رہنا شروع کیا ہے، جنگ جبلی طور پر ہمارے ساتھ ساتھ رہی ہے مگر ماضی میں نہ تو اس میں اتنی شدت تھی اور نہ ہی اس کے اثرات اتنے زہریلے تھے۔ مشینیں غیر محسوس طریقے پر انسانی فطرت کے برجستہ اور نراجی پہلوؤں کی غذا چھین لیتی ہیں جس کے نتیجے میں ایک مخفی عدم قناعت اور بے اطمینانی پیدا ہو جاتی ہے لیکن اس تمام تر صورتحال سے نمٹنے کے لیے مشینوں کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ مشینوں سے متعلق تمام برائیوں سے نمٹنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ہم اس یکسانیت میں وقفے پیدا کریں اور ان وقفوں کے دوران واقعاتی اور مہم جو قسم کی چیزوں کا انتظام کریں۔مشینوں نے ہمارا طریقہ زندگی تو بدلا مگر ہماری فطرت نہیں بدلی نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے اور مشینوں کے درمیان ایک طرح کی عدم مطابقت اور عدم آہنگی پیدا ہو چکی ہے۔ جذبات اور جبلت کی نفسیات ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں مشینیں برجستگی اور بے ساختگی کو بالکل ختم کر دیتی ہیں۔ اس لیے واحد چیز جو فراہم کی جا سکتی ہے وہ ہیں مواقع ان مواقعوں کا استعمال فرض کے تقدم پر چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ انسان کی فطرت اور اس کی شخصیت کو سمجھنا انسانی زندگی میں کسی بھی قسم کی بہتری پیدا کرنے کی مخلص کوشش کی بنیاد ہونی چاہیے۔ جب سائنس انسانی فطرت کو سمجھ جائے گی تو وہ ہماری زندگی میں وہ خوشیاں لے کر آۓ گی جو مشینیں اور طبعی سائنس لانے میں ناکام رہی ہیں۔
+92 51 88 93 092
First Floor, RAS Arcade, Eidhi Market, Street#124, G-13/4, Islamabad, Pakistan, 44000.