Urdu Articles



Sukh Ki Chaon Mein

Sukh Ki Chaon Mein
Published On: 24-Apr-2024
3361 views

Article by

Haveerus Mughal


 

سُکھ کی چھاؤں میں

تحریر: حویرث مغل

سیر و تفریح انسان کی طبیعت کو نہ صرف تازگی بلکہ ایک نئی جہت عطاء کرتی ہے ۔  انسانی فطرت ہے کہ وہ بدلاؤ چاہتا ہے۔ ایک جیسے ماحول سے کچھ وقت کے بعد اُکتا جاتا ہے۔  ایسے میں یہ صحیح وقت ہوتا ہے کہ  اس ماحول سے  نکل کر کچھ نیا دیکھنے کو نکلا جائے اور قدرت کے حُسن کو سراہا جائے۔

کچھ عرصہ قبل میرا سفر کرنے کا اتفاق ہوا یہ سفر ایک ایسی وادی کا تھا جہاں موبائل فون کے سگنلز ملنا دشوار سی چیز تھا۔ جس کی وجہ سے میرا تعلق آن لائن دنیا سے کچھ وقت کے لیے منقطع ہو گیا۔ چنانچہ یہی وجہ بنی کہ میں ایک ایسا وقت گزار سکا جس نے میری سوچ کے تخیل کو ایک نئے نظریے سے آشنا کروایا۔  قدیم تہذیبوں کو اپنے اندر سموئے وہ وادی آج بھی بہت سی اَن کہی کہانیاں جو مشہور ہوئیں اور ہم جان پائے، بہت سے کردار جو وقت کی دُھول میں گم ہو گئے اور کچھ ایسی لازوال داستانیں جو اَمر ہو گئیں سنائے جانے کے انتظار میں کسی داستان گو کی راہ دیکھتی ہیں۔

سب سے پہلے جب میں اپنے اسٹاپ پر اُترا تو ایک دل کش منظر کی گرفت نے مجھے کچھ لمحوں کے لیے اپنے اندر سمو لیا وہ چھوٹی سی جھیل، پہاڑ، گنگناتے ہوئے پرندے اور دور افق پر آسمان کے کینوس پر ڈوبتا ہوا سورج گواہی دے رہے تھے کہ میں ایک ایسی دنیا میں قدم رکھ چکا ہوں جو میں چاہ کر بھی وقت کی دُھول میں دھندلا نہ پاؤں گا۔ منظر سے کچھ دیر لطف اندوز ہونے کے بعد میں نے اپنے عزیز دوست کو اپنا منتظر پایا اس کا آج بھی وہی خوشی سے لبریز پُرجوش اندازِ استقبال تھا کچھ دیر بعد جب ہم گھر کی جانب روانہ ہوئے تو مجھے خیال آیا کہ کیا یہ دوست سے ملنے کی خوشی ہے یا سحر انگیز وادی کا اثر جو طبیعت میں بہار سی بشاشت لے آیا ہے۔

کچھ شب و روز اس وادی میں گزارنے اور وہاں طرزِ زندگی کو جینے  کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ یہاں تو زندگی ایک ہلچل اور لامعنویت سے دور بالکل پاک و پُرسکون  ہے۔ آپ کو لمحوں کو جینے کی فرصت میّسر ہے۔ یہاں وہ درخت موجود ہیں جن کی چھاؤں ٹھنڈی اور محفلیں خُلوص سے مزین ہیں۔ تو پھر ہم انسان اپنی جَنتوں کو چھوڑ کر کیوں ازّل کی روایت کو دہرانے لگتے ہیں اور یہ سب چھوڑ کر شہر کی اذیتوں میں مبتلا ہو نے چل پڑتے ہیں۔ جہاں روپ بہروپ کی دھوپ ہے اور بڑی بڑی دیواروں والی عمارتوں کے باوجود سایہ دیوار تک نہیں ملتا۔ جہاں نہ تو سچے رشتے اور نہ ہی خلوص کی روایت عام ہے۔ بلکہ من و سلویٰ کو ٹھکرا کر مفاد، دولت، اسٹیٹس اور نہ جانے کون کون سے سٹینڈرڈز کی دوڑ اور مقابلوں میں خود کو جھونک رہے ہیں۔ انسان اور انسانیت تو جیسے موجود ہی نہیں ۔ جہاں ہر منطق ہی نرالی ہے۔ جہاں انسانوں کو مفاد پرستی کی بنا پر اہمیت دی جاتی ہے۔ لوگ پروفیشنل ہیں، پریکٹیکل ہیں اور حساس ہونا ایک گالی ہے۔

جہاں ٹیکنالوجی اور اسمارٹ فونز نے آسانی اور انقلاب تو برپا کیا ہے وہیں ہمیں ہماری عظیم روایات سے دور اور ہماری مظبوط جَڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی میں بہت سی سہولیات فراہم کر دی ہیں۔ دنوں کے کام گھنٹوں میں ، گھنٹوں کے کام مِنٹوں میں ، اور مِنٹوں کے کام سیکنڈوں میں ہونے لگے ہیں۔ فاصلے تو گویا سمٹ کر رہ گئے ہیں رات دن کا فرق ختم ہو گیا ہے۔ مواصلات انتہائی برق رفتار ہو گئے ہیں اور اب تو آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے انسانی عقل کو دنگ کر کے رکھ دیا ہے مگر یہ سب جدیدیت کیسے اِبنِ ادم کو کھوٹی آسائشوں اور جھوٹے سِحر کے فریب کی زنجیروں میں جکڑ رہی ہے۔

 

جیسا کہ خواجہ میر درد نے فرمایا ہے؛

؀ درد دل کے واسطے  پیدا کیا انسان کو

 

مگر صد افسوس کہ انسانیت کے اس جذبے کو فراموش کر کے جدید دور کے انسان صرف مفاد پرستی اختیار کر چکے ہیں اور انسانیت کو پس پردہ ڈال کر میکانکی  زندگی جِی رہےہیں ۔

بے شک گاؤں کی زندگی میں آسائشیں اور سہولیات اُس طرح سے میسر نہیں ہوتی جیسا کہ شہر میں، مگر وہاں کے مٹی میں آج بھی تہذیب و روایات گوندھی ہوئی ہیں اور وہاں کا انسان خود کو اس شجرِ سایہ دار سے پیوستہ کیے ہوئے ہے جو اس کی جَڑوں کو مضبوطی عطا کرنے کے ساتھ ساتھ مغرب کی کھوکھلی تہذیب کے وار سے بھی بچاتی ہے۔

آپ کو وہاں وہ تہذیبیں ملیں گی جو صدیوں کے ارتقائی منازل طے کرتی آئی ہیں مگر تیز رفتار ترقی کی چَکاچوند نے بہت سے نادان اَذہان کو متاثر کیا ہے جس کی بِنا پر وہ اپنی جڑوں سے خود کو جُدا کر کے مغربی تہذیب کی جانب دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ مگر وہاں کا انسان آج بھی اُن اِقدار اور رِوایات کو سِینے سے لگائے ہوئے ہے جو مشرقی معاشرے کی بنیادی اساس ہیں۔

تو پھر کیوں نہ سُکھ کی اُس چھاؤں کا رخ کیا جائے اور لوٹ کر اُس جنت کو اپنایا جائے جہاں سُکھ چین کی گھنی چھاؤں ، وہ کچی سڑک ، ماؤں کی دعائیں اور یاروں کی بے لوث محبتیں راہ تکتی ہیں۔ اور ان سب گُتھیوں کو سُلجھایا جائے جو اُلجھ چکی ہیں۔ زندگی کو آسان اور سادہ بنایا جائے جو کہ اس کا اصل حق ہے۔

 

About Us

Monthly "Azeem English Magazine", launched in 2000, records the information about diverse fields like mental health, literature, research, science, and art. The magazine's objective is to impart social, cultural, and literary values to society.

Contact Us

Azeem English Magazine

 +92 51 88 93 092

 contact@aemagazine.pk

  First Floor, RAS Arcade, Eidhi Market, Street#124, G-13/4, Islamabad, Pakistan, 44000.