Urdu Articles



Muasharti Na-Insafi: Gherat kay Nam Par Qatl

Muasharti Na-Insafi: Gherat kay Nam Par Qatl
Published On: 02-May-2024
3302 views

Article by

Haveerus Mughal


معاشرتی ناانصافی: غیرت کے نام پر قتل

تحریر: حویرث مغل

 

عرب کی ان رسومات کو آج ہم بڑے زور و شور سے زمانہ جاہلیت کی رسم کہتے ہیں۔ جہاں وہ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے مگر پھر عرب کے جاہل معاشرے میں شعور کا منارہ نور چمکا کہ جس کی روشنی نے زمین کے طول و عرض کو منور کر کے انسانیت اور اس کے حقوق کو اوج کمال عطا کی۔ مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ آج بھی زمانہ جاہلیت کی ایک نہیں بلکہ کئی فرسودہ رسوم پھر سر اٹھا رہی ہیں۔ کیا ابھی بھی ہم زمانہ جاہلیت میں ہی رہ رہے ہیں؟ عرب نہیں بلکہ تمام عالم کی ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں کو ہزاروں حقوق دے کر معاشرے کا اہم رکن بنانے والا دین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آج کس راہ پر گامزن ہے۔ کیا آج غیرت کے نام پر قتل ہونے والی جانیں  روز قیامت یہ سوال نہیں اٹھائیں گی کہ کیا ہمیں قتل کرنے والے واقعی اس نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ماننے والے تھے کہ جنہوں نے خواتین کے حقوق اور جان و مال کو مقدم رکھا ، وہ نبی صلی اللہ علیہ ہ وسلم کہ جنہوں نے جنگ میں بھی خواتین پر ہاتھ اٹھانے سے منع فرمایا... کیا یہ ہمیں جان سے مارنے والے اس نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیروکار کیسے ہو سکتے ہیں؟ اس نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے امتی کیسے ہو سکتے ہیں جو امن کا پیغام لے کر آئے تھے؟ کیا یہ سوال روز محشر ان درندوں سے نہیں کیا جائے گا قتل کا حساب دینے سے پہلے ، کیا وہ نام نہاد انسان اس بات کا جواب دے بھی سکیں گے۔

 

صد افسوس کہ یہ سب لکھتے ہوئے میرا قلم لرز رہا ہے مگر کیا کروں شرم ساری سے یہ اعتراف کرتا ہوں کہ ہاں میرے وطن میں جو کہ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ہاں میرے معاشرے میں حوّا کی بیٹی آج بھی غیرت کے نام پر قتل کی جاتی ہے نہایت سفاکی اور بے رحمی سے... حال ہی میں ایک دردناک واقعہ خبروں کی زینت بنا ہے مگر نہ جانے کتنی اور معصوم جانے تھیں جو بغیر کسی آواز کے منو مٹی تلے دفن ہو گئیں۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کر کے کوئی کیسے اپنے ضمیر کو مطمئن کر سکتا ہے اور یہ کیسی فکر ہے کہ غیرت کے نام پر جان ہی لے لی جائے۔ کیا یہ سوچ کی رتی برابر بھی فکر ہمارے دین ، معاشرے اور قانون میں ہے؟

جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں!!

ہمارا دین ، ہمارا قانون بلکہ ایک سلیم الطِبع فطرت رکھنے والا انسان بھی اس کی مذمت کرے گا۔ یہ سوچ یہ فکر کسی بھی قانون ، کسی بھی شریعت اور کسی بھی کتاب میں نہیں ملتی۔

 

دوسرا سوال یہ ہے کہ غیرت۔۔۔ کیسی غیرت؟ کون سی غیرت؟ کہ جس میں دوسرے انسان کو اپنی صفائی دینے کا حق ہی نہیں۔  محض شک اور بہتان کی بنیاد پر اتنا بڑا فیصلہ۔۔۔ قتل!! اور پھر ایک اسلامی جمہوری اور آئینی ملک میں رہتے ہوئے کیا ماورائے عدالت قتل کی اجازت ہے؟ کیا چند مقامی لوگ جو خود کو عقلِ کُل مان کر کسی کی بھی زندگی اور موت کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ لاقانونیت اور اپنے مقاصد کے زیر اثر کیے جانے والے فیصلے ظلم و بربریت اور ناانصافی کی ایک بڑی مثال ہے۔ بلکہ آئین تو ہر ایک ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے کا حق دیتا ہے۔ مگر غیرت کے نام پر کیے جانے والے قتل کے واقعات محض شک اور الزام تراشی کو بنیاد بنا کر چند جاہل لوگوں کی رائے پر کیے جاتے ہیں۔

 

پاکستان میں خواتین کے حقوق اور جان کے تحفظ کا معاملہ ہمیشہ سے زیرِ بحث رہا ہے۔ لیکن آج کے دور میں یہ مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہو گیا ہے خاص طور پر غیرت کے نام پر قتل کے معاملات نے ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار کو پاتال کی گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل پاکستان کی ہر طبقاتی فکر میں موجود ہے چاہے۔ وہ شہروں کا ترقی یافتہ ماحول ہو یا دیہی علاقوں کا پسماندہ ماحول ، عورت کا استحصال بہرحال جاری ہے۔

اگر ہم پاکستان کے معاشرے میں موجود اس ناسور کی سنگینی کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کو مقامی طور پر 'کاروکاری' کہا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے مطابق، 2021 میں پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے کے تقریبا 470 کیسسز رپورٹ ہوئے۔ لیکن انسانی حقوق کی حفاظت کرنے والوں کا اندازہ ہے کہ ہر سال تقریباً 1,000 خواتین غیرت کے نام پر قتل کی  ہوتی ہیں۔

 

غیرت کے نام پر قتل، یا عزت کو بحال کرنے کے لیے قتل، پاکستان کی روایات اور قبائلی رہن سہن کا حصہ رہا ہے۔ حال ہی میں اکٹھے کی گئی معلومات نے ظاہر کیا کہ چار سال کے مدت میں پاکستان بھر میں غیرت کے نام پر قتل کے کچھ 2,000 واقعات واقع ہوئے، جس میں کم از کم 2,500 افراد ہلاک ہوئے۔

 

The culture is highly problematic because it leads to fatalities without fear of consequence or retribution, creating a sense of lawlessness in society. More than that, it is a ritual that punishes women more than men, with deaths of the former twice that of the latter.

 

شہروں میں رہنے والی خواتین بھی اس خطرے سے ہرگز محفوظ نہیں ہیں۔ خاص طور پر وہ پیشہ ور خواتین جنہوں نے ہر شعبے میں اپنی محنت اور قابلیت کی بنا پر خود کو منوایا اور مردوں کے معاشرے میں اپنا منفرد مقام بنا کر اپنی قابلیت کا اعلان ببانگ دہل کیا۔ مگر یہ خواتین بھی کچھ پسماندہ سوچ رکھنے والے مردوں کی ا؟ن سیکیورٹی اور انفیریورٹی کمپلیکس کی وجہ سے استحصال سے محفوظ نہیں ہیں۔ جہاں ان کے  کردار اور عزت پر اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے marginalised کیا جاتا ہے اور مردوں کی بِساط میں ایسے فیصلے کیے جاتے ہیں جو ان کو اعلیٰ عہدوں تک ترقی کرنے کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے کے ساتھ ساتھ اس ترقی سے بھی محروم رکھتے ہیں جو کہ ان کا حق ہے۔

جب دیہی علاقوں کی بات کی جائے تو وہاں کی خواتین معاشرے کی اہم اکائی کا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو بھی سنبھالا دیے ہوئے ہیں۔ پاکستانی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ملک و ملت کی ترقی میں کردار ادا کر رہی ہیں مگر صد افسوس ہم ان کو حفاظت فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ دیہی علاقوں میں غیرت کے نام پر قتل انتہائی سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔ جہاں فیوڈل لارڈز ، پنچائت اور جرگہ کو آئین پاکستان پر فوقیت دی جاتی ہے اور چند کم علم لوگ بغیر تحقیق کے کسی بھی زندگی کو موت کی وعید سنا دیتے ہیں۔

 

دیہی علاقہ جات میں خواتین کو پابندیوں اور پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے جب وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہیں تو ان کی زندگی کو خطرہ آن گھیرتا ہے ایسے پسماندہ ماحول میں خواتین کا ترقی پسند خیالات کا رکھنا اور فرسودہ روایات سے نکل کر عصرِ حاضر کی سوچ کو اپنانا ہی ان کا سب سے بڑا جرم ٹھہرتا ہے اور اس جرم کی پاداش میں ان کو غیرت کے نام پر قتل کر کے اپنی نام نہاد غیرت کے جھنڈے کو بلند کر کے فتح کا بِگل بجایا جاتا ہے۔

 

غیرت کے نام پر قتل ایک بہت بڑی معاشرتی بدعنوانی اور ناسور ہے جو ہمارے معاشرے کی جڑوں کو نہ صرف کھوکھلا کر رہا ہے بلکہ ترقی اور تعلیمی سطح کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ خواتین کے لیے محدود تعلیمی وسائل اور ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں ، غیرت کے نام پر قتل کا خوف ، زندگی کی حفاظت کے اقدامات ، ان کو اگے بڑھنے ، اپنی زندگی جینے اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے سے گریزاں رکھے ہوئے ہے۔

حال ہی میں پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے کچھ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ جس میں سے ایک نہایت دلخراش اور سوز انگیز واقعہ مارچ کے مہینے میں پنجاب کے ایک شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہوا جہاں ایک درندہ صفت باپ اور بھائی نے بائیس سالہ ماریہ کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد غیرت کے نام پر قتل کر دیا۔ وہ رشتے جن کو محافظ بننا تھا وہی درندے بنے اس معصوم کو نوچ کھاتے رہے اور پھر معاملے کو ختم کرنے کے غرض سے ایک بے گناہ کی جان لے لی۔ ایسے اور بھی کئی واقعات ہیں جو نہ تو رپورٹ ہو پاتے ہیں اور نہ ہی میڈیا میں highlight ہوتے ہیں. ارباب اختیار کی جانب سے ایسے واقعات پر شدید مذمت کی جاتی ہے. بہت بڑا دل کر کے کئی اہم امور سے وقت نکال کر کوئی بڑا آدمی متاثر افراد کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے اور دادرسی کی یہ فلم بڑے زور و شور سے میڈیا پر چلائی جاتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں درجنوں واقعات رپورٹ ہوتے ہیں ، کیا ان سے ہمارے حکمران اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کچھ سیکھا؟ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا کہ ایسے واقعات رونما ہونے کی دوبارہ نوبت ہی نہ آتی؟  میں یہ سوال اٹھاتا ہوں اور اٹھاتا رہوں گا ، خود سے بھی اور آپ سے بھی ، ہم سب مِن حیث القوم اس جرم میں شریک ہیں۔

وہ تمام گمنام ، بے گناہ اور معصوم لڑکیاں آج بھی انصاف کے انتظار میں اس دشت میں بے سر و سامانی کے عالم میں یہ فریاد کرتی ہیں۔۔۔

 

اَج آکھاں وارث شاہ نوں

کتھوں قبرا وچوں بول

اِک روئی سی دِھی پنجاب دی

تو لِکھ لِکھ مارے وین

اَج لَکھاں دِھیاں رُوندیاں

تَینوں وارث شاہ نوں کَہن

اُٹھ درد منداں دیا در دیا

اُٹھ تَک اپنا پنجاب

اَج بیلے لاشاں وِچھیاں

تے لَہو دِی بھَری چناب

 

ہمارے حکمران قانون پر عمل درآمد کیوں نہیں کرواتے؟  ہم بحیثیت عام شہری اس جیسے واقعات ہونے پر ان جاہلانہ رسوم کے خلاف اپنے ارد گرد آگاہی کیوں نہیں پیدا کرتے؟

یہ کیسی غیرت ہے کہ جس کے نام پر ایک معصوم اور بے گناہ جان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے؟ میری نظر میں غیرت نہیں بلکہ بے غیرتی کا درجہ کمال ہے جب اس طرح سے کسی کی جان لی جاتی ہے تو وہ قاتل کیا سمجھتے ہیں کہ قتل کر کے اپنے سَروں پر غیرت کا شملہ اونچا کر لیا ہے۔۔۔ ہرگز نہیں!! بلکہ یہ بزدلی کی انتہا ہے کہ حالات کا غیر جانبداری سے جائزہ لینے کے بجائے عجلت میں انتہائی قدم اٹھا لیا جائے۔

افسوس کے ساتھ ہم فکری طور پر اِنتہا پسند ہو چکے ہیں۔ اس جذبے نے ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے۔ ہم عقل و خِرد سے عاری اس طرح کے فعل پر اُتر آتے ہیں کہ انسانیت کے تمام تقاضے پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔

اس شرمناک حقیقت کے بارے میں قران مجید میں اللّہ تعالیٰ نے عورتوں کے حقوق کو بہت واضح انداز میں بیان کیا ہے اور کسی بھی عورت کو بغیر وجہ کے قتل کرنا انتہائی ناپسندیدہ فعل قرار دیا ہے۔ قران پاک میں عورتوں کی عزت اور حقوق کے حوالے سے ایک مخصوص آیت میں اللّہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

 

"اے ایمان والو تمہارے لیے حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔" (النساء - 19)

 

اسلام میں خواتین کو سماجی ، معاشی ، معاشرتی ، اقتصادی حقوق فراہم کیے گئے ہیں۔ ان کے انصاف تعلیم اور ہر مسئلے کے حل کے لیے احکامات موجود ہیں جو خواتین کی ترقی اور فلاح کے لیے ضروری ہیں۔ خواتین کی ترقی معاشرتی ترقی کی بنیاد ہے لیکن جب وہ خوف اور دہشت میں زندگی گزار رہی ہوں تو ان کی ترقی پر بڑا اثر پڑتا ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف حکومتی اقدامات میں نہیں بلکہ ہماری معاشرتی سوچ اور ذہنیت میں تبدیلی پر منحصر ہے۔ ہمیں عورتوں کے حقوق کو پہچاننا ، ان کی عزت کو قدر دینا اور ان کے ساتھ انصاف کی فراہمی میں سہولت مہیا کرنے میں ہے۔ پاکستان میں خواتین کی ترقی اور حقوق کی حفاظت کے لیے ہمیں اسلامی اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ خواتین کے حقوق کی حفاظت اور عزت کو محفوظ کرنا ہمارا دینی اور انسانی فریضہ ہے جو ہمیں پاکستانی معاشرت کو مضبوط بنانے کی راہ میں اہم کردار ادا کرے گا۔

اب وقت آچکا ہے کہ ہمیں معاشرتی تبدیلی کے لیے ایکجہتی اور اقداماتی مشن کا آغاز کرنا ہوگا اور ان تمام سوالات کا جواب انصاف سے دینا ہوگا جو وہ تمام بے گناہ لڑکیاں ہم سے کر رہی ہیں جو نام نہاد غیرت کی بھینٹ چڑھ گئیں ، کسی کا خون جائیداد کی خاطر ، کسی کا خون بے بنیاد تہمت پر ، کسی کا خون اپنا بنیادی حق مانگنے پر ، کسی کا خون ہوس و درندگی کی نظر ، کسی کا خون خاندانی تنازعات اور کسی کا خون معاشرے میں بگاڑ کی وجہ بنا کر۔۔۔

 

وہ سب سوال کرتی ہیں کہ؛

-کیا جائیداد حاصل کر کے دنیا مل گئی؟

-کیا میرے خون کے رنگ سے تہمت سچ ہو گئی؟

-کیا میرے خون سے تمہارے ہوس اور درندگی کے پیاس بجھ گئی؟

-کیا میرے خون سے خاندان کے تناور درخت کی ابیاری ہو گئی؟

اور!!

-کیا میرے خون کی ہولی سے معاشرے کی اصلاح ہو گئی اور معاشرہ میرے کردار سے بچ گیا؟؟!!

 

اگر نہیں تو میں اپنا خون کس کے ہاتھ ڈھونڈوں یہ وہ سوالات ہیں کہ جن کا جواب صرف اور صرف انصاف اور مجرموں کو سزا کی صورت میں دیا جا سکتا ہے۔

 

ہم سب کو اس بات پر ماتم کُناں ہونا چاہیے کہ کچھ دن بس کچھ دن بعد یہ خبر کاغذوں تَلے دَب جائے گی۔ تمام سرکاری کاروائیاں اور پُھرتیاں فائلوں کی زینت بن کر طاقِ نِسّیاں میں رکھ دی جائیں گی اور پھر دوبارہ کچھ عرصے بعد کوئی معصوم اپنی جان سے جائے گی تو ہم پھر مذّمت کریں گے اور چین کی بانسری بجائیں گے۔ مگر جانے والی یوں ہی جاتی رہیں گی اور کَلنک کا یہ ٹِکا ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے کے ماتھے پر لگا رہے گا۔

 

 

About Us

Monthly "Azeem English Magazine", launched in 2000, records the information about diverse fields like mental health, literature, research, science, and art. The magazine's objective is to impart social, cultural, and literary values to society.

Contact Us

Azeem English Magazine

 +92 51 88 93 092

 contact@aemagazine.pk

  First Floor, RAS Arcade, Eidhi Market, Street#124, G-13/4, Islamabad, Pakistan, 44000.