Urdu Articles



Kabhi Ghaur Kiya?

Kabhi Ghaur Kiya?
Published On: 24-Apr-2024
3615 views

Article by

Duaa Iftikhar


کبھی غور کيا ہے؟

Duaa Iftikhar

چليے موسم گرما کی اس تپتپاتی دھوپ کی گھڑی ميں،‌ جس کے دہانے انسان چاہتے ہوۓ  بھی چہرے کی تيوری ختم نہ کر سکا۔ اور جون جولائی کی شديد گرمی کی لہرميں سڑک کے کنارے اور سرہانے بلکہ کسی بھی جانب بمشکل کوئی ايک آدھ شخص نظر سے ايسا گذرا   جو ان گرم تيز دھاروں سے بچ سکا ۔ بلکہ ايک تو گرمی اور اوپر سے افراتفری۔ ان دونوں کے ملاپ نے دنيا کا کشمکش سے لپٹا ايسا الجھن بھرا چہرا دکھايا جس کے بارے ميں ميرا يہ ماننا ہے کہ انسان جتنا اس دوڑ ميں مگن ہوتا ہے وہ خود کو اتنا ہی پيچھے محسوس کرتا ہے اور اس سے بڑھ کراور کيا افسوس کی بات ہے کہ ہم ايک شے کے پيچھے بھاگيں بھی اور بلاخر وہ کچھ دے بھی نہ اور اگر ديکھا جاۓ تو يہی ايک عمل ہے جس کی وجہ سے ہر فرد اپنی زندگی کو مشکل تر بنا رہا ہے۔ يہی نقشہ اس شعر نے كيا خوب کھينچا ہے۔

 

آيا تھا اس دنيا ميں اپنی پہچاں کے ليے انسان

بن گيا ہے اس جہاں ميں افراتفری کا سامان  (دعا)

 

اب يہاں پر بات پاکستانی ‍قوم سے نہيں ہو رہی، کيونکہ مجھے يہ لگتا ہے کہ جب بھی ہم اپنی قوم کے اکثر غلط کارناموں کے بارے ميں پڑھتے يا سنتے ہيں تو اپنے آپ کوکچھ اس سے الگ سمجھنے لگتے ہيں۔ حالا که اگر غور جاۓ توايک مذاق ميں بولے جانے والا جھوٹ بھی ملکی، معاشی يا خاندانی پستی ميں کوئی کم حيثيت نہيں رکھتا۔ ہاۓ رے ہم صدقے تمہارے! آخر یہ جھوٹ بھی کس کے ليے_دنيا والوں کے ليے۔ لہذا ايسے جھوٹ سے لازمی طور پر بچنا چاہيے کیونکہ فائدہ ہمارا ہی ہے۔

 

تو ميں يہاں اپنے آپ سميت ہر اس فرد سے مخاطب ہوں جو دنيا کے پيچھے يا تو قوت سے بھاگ رہا ہے يا اس کے پيچھے دوڑ دوڑ کر تھک چکا ہے اور اب مجبورا" چل رہا ہے۔ تو چاہے وہ نوجوان ہوں يا جوان يا پھر والدين۔ کبھی  ہم نے يہ غور کيا ہے کہ جہاں معمول سے تھوڑا زيادہ موسم اگر شدت اختيار کر جاۓ اور ہميں کسی کام سے يا تو باہر جانا پڑے يا آپ کچن کی ہی مثال لے ليں، ايسے حالات ميں کيسی بےبسی والی کيفيت طاری ہوتی ہے پھر روز آخرت ہم کيا کريں گے جب چاليس سال تک سورج ہم سے صرف ايک ميل کے فاصلے پر ہوگا اور حديث ميں آتا ہے کہ انسان اپنے گناہوں کے بقدر پسينے ميں شرابور ہوگا۔ کوئی ٹخنوں تک، کوئی گٹھنوں تک، کوئی پيشانی تک تو کوئی اپنے ہی پسينے ميں غوطے کھا رہے ہوں گے۔ ليکن اللّہ تعالی کے حکم سے انھيں موت نہيں آۓ گی۔ برعکس يہاں کے، اس دن انسان چاہے گا موت کو۔ کتنا بےبس ہوگا وہ وقت! جبھی آنکھيں پھٹی کی پٹھی رہ جائيں گی۔ اور جن رشتوں کے ليے يا ان کو دکھانے کے ليے کچھ بھی کرنے کو تيار ہو جاتے ہيں،اس دن وہ ہمارے سامنے ہی ہوں گے ليکن ہم ان کو پوچھ بھی نہيں رہے ہوں گے۔

يہ سب باتيں کس ليے ہيں؟ يہاں تو ہم کسی بھی طرح گرمی دور کرليتے ہيں پر وہاں  شديد گبھراہٹ کے عالم ميں کيا کريں گے جب بغير کسی تفريق کے سبھی کو اس مرحلے سے گزرنا ہو گا۔ يہ حقيقت بصورت سوال آنکھيں کھول ديتی ہے کہ دنيا کی کيا حيثيت ہے۔ چنانچہ اپنا چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی کڑی نظر کا مستحق ہے۔اور اپنے اوپر يا دوسروں پر ظلم کرنے سے پہلے اس مرحلے کو ضرور ياد کرنا چاہيے۔

 

About Us

Monthly "Azeem English Magazine", launched in 2000, records the information about diverse fields like mental health, literature, research, science, and art. The magazine's objective is to impart social, cultural, and literary values to society.

Contact Us

Azeem English Magazine

 +92 51 88 93 092

 contact@aemagazine.pk

  First Floor, RAS Arcade, Eidhi Market, Street#124, G-13/4, Islamabad, Pakistan, 44000.